Friday 12 July 2013

 لال مسجد آپریشن کے اصل حقائ  


٢٦ فروری ٢٠٠٧ کی ایک سہانی صبح جب اسلام آباد کا خوبصورت موسم اپنی رنگینیاں بکھر رہا تھا، تب کسی کے وھم و گمان میں بھی نہیں تھا کے آنے والے وقت میں کیا ہونے جارہا ہے . جیسے ہی گھڑی نے دوپہر کے ٢ بجاے ، میونسپل روڈ پر قائم لال مسجد کے زیر انتظام چلنے والا طالبات کا مدرسہ “جامع حفصہ “کا گیٹ کھلا اور درجنوں طالبات نے ایک چینی ادارے کے زیر انتظام چلنے والے  مساج سینٹر پر قبضہ کر کے وہاں موجود درجنوں چینی خواتین کو زبردستی اپنے مدرسے میں لے جا کر یرغمال بنا لیا. جامع حفصہ کی طالبات کا مؤقف یہ تھا کے چینی مساج سینٹر یہاں فحاشی پھیلا رہا ہے. بہرحال انکی اس حرکت پر پاکستان کو دنیا بھر میں خاصی سبکی کا سامنا کرنا پڑا اور اس وقت کی حکومت پاکستان کو چینی حکام نے رابطہ کر کے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا.اس واقعے کے بعد سب سے بڑا مسلۂ ان چینی خواتین کی بحفاظت  رہائی تھا. حکومت نے اپنے کچھ نمائندے بھیجے جنہوں نے مشروط مزاکرات کر کے ان خواتین کو رہائی دلوائی اور اس کے  بعد وہ  مساج سینٹر تو بند  کر دیا گیا لیکن لال مسجد پاکستانی عوام اور میڈیا کی نظروں میں آگئی. کہنے کو تو یہ ایک چھوٹا سا واقعہ تھا لیکن اس واقعے نے اس افسوسناک آپریشن کی بنیاد رکھ دی جسے دنیا آج “لال مسجد آپریشن” کے  نام سے جانتی ہے.
کامیاب مزاکرات کے بعد لال مسجد کے اساتذہ،طلبہ و طالبات اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگۓ کے اپنی اس دہشت اور طاقت کے بل بوتے پر وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں اور اسی وجہ سے محض کچھ ہی دنوں بعد ایک این جی او کے دفتر پر چھاپہ مار کے اس این جی او کی سربراہ  “آنٹی شمیم ” کو یرغمال بنالیا. یہاں بھی لال مسجد انتظامیہ کا مؤقف پہلے والے مؤقف سے کچھ مختلف نہ تھا. اس بار بھی حکومت وقت حرکت میں آئی اور انہوں نے کامیاب مزاکرات کر کے آنٹی شمیم کو رہائی دلوائی . اب لال مسجد والوں کو اپنی اس دہشت کا یقین ہوگیا اور انہوں نے تواتر سے اپنی کاروائیاں شرو کر دیں .
چند ہے ہفتے گزرے تھے کے جامع حفصہ کی طالبات ایک روز پھر سڑکوں پر نکل آئیں اور اس دفعہ وو سب کی سب ڈنڈا بردار تھیں . پہلے مرحلے میں انہوں نے قریب واقع تمام دکانوں کو بند کروایا اور “رب کی زمین پر رب کا نظام” کے نعرے لگاۓ . یہاں انکا مطالبہ صد فی صد درست تھا لیکن میں یہاں دعوے سے کہ سکتا ہوں کے بڑے سے بڑا عالم بھی ان کے اس طریقہ کار سے اتفاق نہیں کریگا. اس واقع کے بعد مقامی پولیس حرکت میں آئی اور انہوں نے تمام طالبات کو منتشر کر کے واپس جانے پر مجبور کر دیا. اس اہم واقع کے بعد حکومت نے لال مسجد انتظامیہ کو سنجیدگی سے لینا شروع کردیا. جب ان سے مزاکرات کر کے ان کے مسائل معلوم کرنے کی کوشش کی  گئی تو انہوں نے مطالبہ کیا کے ہمیں پاکستان میں خلافت راشدہ کا نظام چاہیے. یہ ایک انتہائی اچھا مطالبہ  تھا لیکن یہ اتنی آسانی سے ممکن نہ تھا اور جو طریقہ کار وہ اس مطالبے کو منوانے کے لئے استمعال کر رہے تھے وہ بھی ایک جبر تھا. حکومت وقت نے وہ مطالبہ فوری ماننے سے انکار کر دیا تو لال مسجد والوں نے قانون ہاتھ میں لینے کی دھمکی دیدی. کئی دن مزاکرات چلتے رہے لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا .
آخر کار حکومت نے بہت سوچ بچار کے بعد  امام کعبہ شیخ عبدالرحمان بن سدیس کو بلانے کا فیصلہ کیا.  امام کعبہ پاکستان آے،حکومت نے انھیں تمام معاملے سے آگاہ کیا تو انہوں نے مزاکرات کرنے کی حامی بھرلی .لال مسجد انتظامیہ نے بھی اس معاملے میں  بھرپور تعاون کیا اور امام کعبہ سے کامیاب  مزاکرات کے بعد معاملہ ہنسی خوشی  رفع دفع ہوگیا. حکومت سمیت سب لوگوں نے سکھ کا سانس لیا. لیکن یہ معاملہ اس وقت دوبارہ خراب ہوگیا جب لال مسجد والے امام کعبہ سے کئے گئے معاہدے سے مکر گئے اور دوبارہ اپنی ہٹ دھرمی پر اتر آے .
پہلے مرحلے میں انہوں نے ارد گرد کی تمام مارکیٹوں کو بند کروایا اور دوسرے مرحلے میں علاقے کی تمام خواتین کے گھروں سے نکلنے پر پابندی عائد کردی. یہ ایک  کھلم کھلا ریاست کے اندر ریاست بنانے کا اعلان تھا جسے کوئی حکومت برداشت نہیں کر سکتی، حکومتی رٹ چلینج کی گئی تھی. اپوزیشن جماتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی حکومت کو کوسنا شروع ہوگئی تھیں حتیٰ کے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں خواجہ سعد رفیق اور خواجہ محمد آصف کا اسمبلی کے فلور پر دیا گیا بیان آن ریکارڈ ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر حکومت لال مسجد انتظامیہ کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کریگی تو یہ سمجھا جایگا کہ  حکومت ان سے ملی ہوئی ہے. لیکن کمال ہے اس وقت کی حکومت پر کہ انہوں نے اس موقع پر بھی صبر کا دامن  نہ  چھوڑا اور دو خواتین حکومتی اراکین کشمالہ طارق اور سمیرا ملک کو جامع حفصہ کی طالبات سے مزاکرات کرنے بھیجا گیا (واضح رہے کے دونوں خواتین اب مسلم لیگ ن کا حصّہ ہیں) . ان دونوں رہنماؤں نے مزاکرات کے بعد میڈیا کو بیان دیا کہ ہمارے ان بچیوں سے مزاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور حتمی مزاکرات لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور ان کے بھی مولوی عبدلرشید غازی کرینگے اور اس کے لئے انہوں نے ہم سے موبائل فون کا تقاضہ کیا ہے تاکہ وہ حکومت سے رابطہ کر کے بات چیت کا عمل آگے بڑھایں (یاد رہے اس زمانے میں موبائل فون اتنے زیادہ عام نہیں تھے).
معاہدے کے مطابق انھیں موبائل فون فراہم کر دیے گئے لیکن بجاے اس کے کہ وہ حکومت سے رابطہ کرتے، انہوں نے جیو، اے  آر وائی  سمیت ملکی و غیر ملکی میڈیا سے رابطے شروع کر دیے اور اپنی مظلومیت کا رونا روتے رہے اور حکومت پر مزاکرات کے لئے سنجیدہ نہ ہونے کا الزام عائد کرتے رہے. انکی یہ حرکت انتہائی غیر اخلاقی تھی جس کے بعد حکومت نے انسے سختی سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کرلی لیکن مزاکرات کے راستے بند نہ کیے. مزاکرات کے لئے سب سے پہلے حکومتی جماعت کے سربراہ چودھری شجاعت حسین،ان کے ہمراہ پرویز الہی، مشاہد حسین سیّد، وزیر مذہبی امور اعجاز الحق اور معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کو بھیجا گیا لیکن مزاکرات ناکام ہوگئے. عبدالستار ایدھی تقریباً 4 دن وہاں موجود  رہے اور ان سے مزاکرات کرنے کی کوششیں کرتے رہے لیکن بے سود. معاملہ اس وقت سنگین ہوا جب لال مسجد والوں نے حکومت کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم اپنی کاروائیاں مزید تیز کرینگے چاہے آپ کچھ بھی کرلیں. یہ وو موقع تھا جب حکومتی رٹ کو بری طرح چلینج کیا گیا. حکومت نے لال مسجد والوں سے مطالبہ کیا کے آپ کم سے کم ان طلبا کو تو رہا کردیں جو آپ کے پاس علم حاصل کرنے کے لئے رہائش پذیر ہیں خدارا انھیں ڈھال نہ بنایں، لیکن وہاں کی سفّاک انتظامیہ کو ذرّہ برابر بھی ان غریب طلبا پر ترس نہ آیا اور انہوں نے ان غریب والدین کے اعتماد کو ٹھیس پوھنچاتے ہوئے جنہوں نے اپنے بچوں کو دینی علم سکھانے کے لئے مدرسے میں داخل کیا تھا ان تمام بچوں کے ہاتھوں میں اسلحہ تھما دیا اور حکومت کو “جہاد” کے لئے للکار دیا.
بالآخر جولائی ٢٠٠٧ کا وہ منحوس مہینہ بھی آگیا جب پاکستانیوں نے یہ افسوسناک منظر دیکھا جب مدرسے میں علم حاصل کرنے والے طلبا اپنے فوجیوں، پولیس، ایف سی اور رینجرز پر گولیاں برسا رہے تھے. جواباً پاک فوج کو بھی اپنے دفاع میں کاروائی کرنا پڑی . یہ خون ریزی بہرحال سب کے لئے ناقابل قبول تھی اسی لئے حکومت نے اپنے اصولی مؤقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے عبدالستار ایدھی کو دوبارہ طلب کیا اور ان پر مزاکرات کی ذمہ داری ڈالی گئی. مولانا الحمدلللہ آج بھی زندہ ہیں اور الله انھیں مزید زندگی عطا فرماے، آج کوئی بھی ان سے جاکر پوچھ لے کے جب وو مزاکرات کے لئے مسجد میں گئے تو مولانا عبدلعزیز اور مولوی عبدلرشید غازی نے حکومت کے ساتھ  “جہاد” کرنے کو مزاکرات پر فوقیت دی. ایدھی صاحب پھر بھی ہمّت نہ ہارے اور انہوں نے معصوم سا مطالبہ کیا کے آپ لوگوں کو لڑنا ہے تو لڑیں لیکن خدارا ان معصوم بچوں اور بچیوں کو ہمارے حوالے کردیں جن کو آپ نے زبردستی ہتھیار تھماے ہوئے ہیں لیکن ان ظالموں کو تب بھی ترس نہ آیا اور انہوں نے صاف انکار کردیا کہ ہمارے بچے لڑتے لڑتے “شہادت” کا رتبہ پائیں گے. الغرض ان ظالموں نے مزاکرات کے ہر راستے بند کر دیے.
لال مسجد والے لاکھ برے سہی لیکن ایک مسلمان کے لئے اپنے بھائی سے لڑنا  انتہائی کربناک ہوتا ہے اور اسی وجہ سے حکومت روزانہ کی بنیاد پر 6 گھنٹے اپنے ہتھیار بند رکھتی تھی یعنی دوسرے الفاظ میں “سیز فائر” رکھتی تاکہ لال مسجد میںتصویر موجود معصوم طلبا اپنی مرضی سے باہر آجائیں. حکومت کا یہ قدم انتہائی کامیاب رہا اور روزانہ سیکڑوں کی بنیاد پر وہ معصوم طلبہ و طالبات جو ان ظالموں کے چنگل سے آزاد ہوتے تھے باہر آتے جاتے تھے اور حکومت انھیں اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا کرتی تھی. اسی دوران حکومت نے جے یو آئی (ف) کے ممبر قومی اسمبلی شاہ عبدالعزیز کو بھی مزاکرات کے لئے مسجد میں بھیجا جو ناکام و نامراد واپس آگئے.
پھر ایک روز ایک انتہائی عجیب واقعہ ہوا. لال مسجد کے باہر سیز فائر تھا اور برقع پوش طالبات باہر آرہی تھیں کہ اچانک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خواتین کو ایک برقع پوش خاتون پر شک گزرا. جب انہوں نے اسکا برقع ہٹایا تو وہ اور کوئی نہیں بلکہ مولوی عبدالعزیز تھے جو سیز فائر کا ناجائز فائدہ اٹھا کر برقع پوش طالبات کی آڑ میں راہ فرار اختیار کر رہے تھے. یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا تھا کہ آپ مزاکرات کرنے کے بجاے ہزاروں معصوم طلبہ و طالبات کی زندگی خطرے میں ڈال کر فرار ہورہے تھے. فوج کے سپاہیوں نے فوراً ہی مولانا کو اپنی تحویل میں لے لیا اور تفتیش کے لئے نا معلوم مقام پر منتقل کردیا.
اس واقعے کے بعد میڈیا، حکومت اور عوام میں شدید غصّے کی لہر دوڑ گئی لیکن حکومت نے تب بھی مزاکرات کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا اور مولانا عبدالعزیز کو عبدالرشید غازی پر مزاکرات کے لئے دباؤ ڈالنے پر مجبور کیا لیکن اسکا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا. اس دوران اس وقت کے صدر مملکت پرویز مشرّف نے کئی مرتبہ میڈیا پر آکر بیان دیا کہ لال مسجد والے باہر آجاییں ورنہ مارے جاینگے. یہ بات کئی دفعہ دوہرائی گئی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا. اور پھر ٩ جولائی کا وہ افسوسناک دن بھی آیا جب مولانا عبدالرشید غازی اپنی ہی پاک فوج کے خلاف لڑتے لڑتے جاں بحق ہوگئے. انکی ہلاکت کی کسی کو خوشی نہ تھی. اس کے بعد لال مسجد میں یرغمال بنے تمام طلبہ و طالبات باہر آگئے اور یوں ایک ہفتہ جاری رہنے والا آپریشن اپنے اختتام کو پہنچا. اس آپریشن کے نتیجے میں لال مسجد کو جو نقصان ہوا سو ہوا، سیکڑوں فوجی جوان، پولیس و ایف سی کے اہلکار بھی شہید ہوئے اور لال مسجد کے سو کے قریب طلبا و طالبات اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے. اور یوں ایک کربناک آپریشن اپنے انجام کو پہنچا.
یہ تمام حقائق بالکل حق اور سچ ہیں اور کوئی بھی کہیں سے بھی انکی تصدیق کر سکتا ہے. اب یہاں چند اہم ترین باتیں درج ذیل ہیں:
١) آج کل تقریبآ تمام ہی بڑے بڑے سیاستدان اس آپریشن کی ذمے داری اس وقت کے صدر پرویز مشرّف پر ڈالتے ہیں. جب کہ پرویز مشرّف نے تو مزاکرات کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا تھا. اور تو اور کچھ جماتیں جن میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی شامل تھیں وو حکومت پر لال مسجد والوں ک خلاف کاروائی کرنے کے لئے دباؤ ڈالتی تھیں جیسا کہ مسلم لیگ ن کے ٢ رہنماؤں کے بیانات کا اوپر تذکرہ کیا جا چکا ہے. ان جماعتوں میں کوئی بھی اس آپریشن کا حل نکالنے میں سنجیدہ نہیں تھا کیونکہ جیسے ہی آپریشن شروع ہوا، تمام لیڈران لندن میں آل پارٹیز کانفرنس (اے پی ڈی ایم) کے اجلاس میں شرکت کرنے چلے گئے جن میں عمران خان ، مولانا فضل ارحمان ، قاضی حسین احمد مرحوم، اسفںدیار ولی، نوابزادہ طلال بگٹی شامل تھے جبکہ بینظیر اور نواز شریف تو پہلے سے ہی لندن میں موجود تھے. یہیں سے ان سب کی سنجیدگی ظاہر ہوجاتی ہے کیونکہ اگر یہ سب معاملے کے حل کے لئے سنجیدہ ہوتے تو اس اہم اور نازک ترین موقع پر ملک چھوڑ کر نہ جاتے اور اس مسلۓ کا حل حکومت کے ساتھ مل کر نکالتے.
٢) سیز فائر کے دوران باہر آنے والے کچھ طلبا نے شاہ عبدالعزیز کو دیکھ کر میڈیا کو بتایا کہ یہ وو شخص تھا جس نے لڑائی کے دوران ہماری مسجد آکر عبدالرشید غازی کو لڑائی میں ڈٹے رہنے کی سختی سے تلقین کی تھی (جبکہ شاہ عبدالعزیز نے باہر آکر میڈیا کو بتایا تھا کہ میں نے مولوی عبدالرشید غازی کو منانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ نہ مانے).
٣) اگر حکومت کو لال مسجد والوں سے کوئی ہمدردی نہ ہوتی تو کبھی سیز فائر کا آپشن نہ رکھتی.
٤) سب سے زیادہ اہم اور غور طلب بات یہ کہ مسجد جیسی انتہائی حرمت اور پاک و مقدّس جگہ پر اتنے جدید ہتھیار اتنے وسیع پیمانے پر کیسے آگئے کہ وہ لوگ پاک فوج سے ایک ہفتے تک لڑتے رہے؟؟
٥) لال مسجد آپریشن کے بعد ہی تحریک طالبان پاکستان منظر عام پر آئی اور انہوں نے آپریشن کا بدلہ لینے کی دھمکی دی جس سے دہشت گردوں کے لال مسجد کے ساتھ تعلق کا پتہ چلتا ہے.
بحیثیت مسلمان ہم سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائیں لیکن ہر کام کا اپنا ایک طریقہ کار ہوتا ہے اور اسلام نے بھی اسکا ایک طریقہ وضح کردیا ہے. الحمدلللہ پاکستان آج بھی ایک اسلامی مملکت ہے اور انشاالله تا قیامت رہیگا.اگر آج خدا نخواستہ غیر اسلامی ریاست بن چکا ہوتا تو بڑے بڑے علمائے دین جن میں مولانا طارق جمیل صاحب، مولانا الیاس قادری صاحب، علامہ ابتسام الہی ظہیر صاحب، علامہ عبّاس کمیلی وغیرہ ہم سب مسلمانوں کو حکومت کے خلاف “جہاد” کرنے کا حکم دیتے. میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ لال مسجد والوں کا مطالبہ صحیح لیکن طریقہ کار غلط تھا. اگر ان کے طریقہ کار کو صحیح مان لیا جائے تو میری ناقص ترین رائے میں آج کل پاکستان کے گلے کا ناسور “تحریک طالبان پاکستان” بھی بالکل ٹھیک کام کر رہے ہیں، مطالبہ ان کا بھی کم و بیش ووہی ہے لیکن صرف ایک وجہ سے ہر مسلک کے لوگ ان کے خلاف ہیں اور وہ وجہ ہے “ظلم و جبر”.
تاریخ کا سب سے بڑا معجزہ نبی اکرم صلّ الله علیہ وسلّم کے زمانے میں ہوا تھا جب رحمتاللعالمین صلّ الله علیہ وسلّم کے خون کے پیاسے آقا دو جہاں صلّ الله علیہ وسلّم پر اپنا تن، من، دھن لٹانے کو بیتاب ہوگئے تھے. ایسا انقلاب نہ تو پھر کبھی آیا اور نہ ہی آئیگا. اس انقلاب تاریخ کی سب سے بڑی جڑ “پیار و محبّت” تھی. اگر اسلام ظلم و جبر سے پھیلتا تو آج حالات مختلف ہوتے.
آخر میں میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرا مقصد کسی کو گناہ یا ثواب کا حقدار ٹھہرانا نہیں تھا. یہ کام تو صرف اور صرف رب ذولجلال کا ہے. میرا مقصد صرف ان چند حقائق سے پردہ اٹھانا تھا جو اس اہم ترین واقعے میں رونما ہوئے تھے. جتنے بھی حقائق میں نے بیان کے وہ سب حق اور سچ ہیں اور میں اپنے ہر لفظ کا ذمے دار ہوں. پھر بھی اگر کہیں کوئی غلطی ہوئی یا آپ کو میری کوئی بات بری لگی تو رب کے حضور معافی کا طلبگار، دعا کا خواسگار ہوں.
الله ہمارے ارض پاک کو امن و اسلام کا گہوارہ بنادے، آمین!!


No comments:

Post a Comment